اس کی دو وجوہات ہیں اک وہ اخلاقی دائرہ ہے جسمیں ہم پابند ہیں کہ ہم اپنی حدود سے باہر نہیں نکلیں گے اور ہم بطور شہری تمام ایسے کام سے اجتناب کرتے ہیں جس سے ملک کا قانون ہمیں منع کرتا ہے اور اک اچھے معاشرے کی مثال بھی ایسی ہے کہ ہم اپنے دائرے میں رہتے ہوئے ملک کو فائدہ ہی پہنچائیں یا فائدہ پہہنچانے کی تگ و دو جاری رکھیں،دوسری وجہ ہماری انفرادی سوچ اور مروعبیت کا حاوی ہونا ہے جیسے زندگی کی دوڑ میں ہم نے اور بہت سی خواہشات پالی ہوتی ہیں کہ دوسرے کے پاس یہ ہے تو میرے پاس کیوں نہیں اور اسی کیوں میں ہم زندگی کے وہ حسین خواب جو ہم پورا کرنے چاہ رہے ہوتے ہیں وہ وہیں رہ جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے بعد ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچتا، میں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ کر یہ سب سوچ رہا تھا تبی وہاں اک مقامی شخص میرے پاس آ یا کچھ دیر بات چیت کے بعد میں نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی جو شائد میری عادت ہے کہ میں ہر چیز کو بہت جلد سمجھنا چاہتا ہوں، پھر اسکو آسان لفظوں میں ڈھالنا چاپتا ہوں اور پھر اسکو دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہوں نہیں معلوم یہ عادت اچھی ہے یا بری لیکن میں وہی بات دوسروں تک پہنچاتا ہوں جو میں محسوس کرتا ہوں۔
اس وقت میں اک گورنمنٹ سکول سے ملحقہ علاقہ میں موجود تھا،پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ کر نظارہ کچھ یوں تھا کہ میرے پیچھے اور دائیں طرف اونچے نیچے ٹیلے تھے ان پر چیڑھ کے لمبے لمبے درختوں کی لمبی قطار تھی جیسے سکول اسمبلی کے وقت بچوں کی قطار بنی ہوتی ہے اور اسمیں کوئی اک بچہ ایسا بھی ہوتا ہے جو قد تھوڑا ہونے کی وجہ سے مچان کو دیکھ نہیں پاتا اور ایڑی پہ کھڑا ہو کہ یا سر کو دائیں بائیں سرکا کے موقع واردات کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے گویا میرے سامنے کشمیر کی وہ خونی لکیر جسکو دیکھنے کے لیے تمام درخت بھی متجسس تھے جیسے انکے بھی سگھے کچھ اس پار رہ گئے ہوں یا وہ یادیں وہ باتیں دہرانے کے لیے بے چین ہوں جو پون صدی پہلے گزر چکی، یہ اس علاقے کی سب سے اونچی جگہ ہے جہاں آگے کی طرٖف گہری کھائی اور اسکے ساتھ مقامی آبادی تھی جسمیں گھروں کی کوئی خاص ترتیب تو نہیں تھی لیکن ہر گھر کے سامنے ہل چلا کر موسمی فصل بوئی گئی تھی اور اس وادی سے تھوڑا آگے ہی کشمیر کا وہ خطہ بھارتی زیر تسلط جس کو پار کرنا ہمارے ملکی قانون کی پاسداری کے خلاف بات ہے اسلئیے ایسی خواہش صرف خواب میں ہی کی جا سکتی ہے۔

دیکھنے میں اکثر آیا ہے بلکہ اب ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہم کسی خوبصورت مقام یا شخص کو دیکھتے ہیں تو اسکی تصویر بنا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اس منظریا اس شخصیت کو قید کر لیا ہے جیسے میں نے اپنی والدہ کی بہت سی تصاویر انکی زندگی میں بنائی لیکن انکے جانے کے بعد آج جب تصوریر دیکھتا ہوں تو مجھے اس پل کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اس لمحہ پہ قربان جاؤں جب وہ میرے ساتھ تھیں میں اس پل کو بیان بھی نہیں کر سکتا،ایسے ہی جب ہم تصویر کشی سے خود کو تسلی دیتے ہیں تو یہ کافی نہیں بلکہ اس جگہ کے حصار میں ڈوبنا اور پھر گہرائی میں جا کر اسکا عرق نکالنے کے لیے کاوش درکار ہے۔ ہوا کا جھونکا جب مجھ سے ٹکرا رہا تھا تو میں اس سوچ میں پڑھ گیا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ہم یہ موازنہ بھی نہیں کر سکتے کہ اس میں ہماری سرحد کی کتنی ہوا شامل ہے اور سرحد پار سے آئی ہوا کی کتنی مقدار شامل ہے انسانوں کا بس چلے تو اس میں بھی تفریق پیدا کر دے لیکن اللہ نے کچھ کام اپنے زمہ لیے ہیں اور وہ انکو بہتر انداز سے چلا رہا ہے، کیونکہ اسکی نعمتیں تو تمام انسانیت کے لیے ہیں۔
یہ نظارہ ایسا تھا کہ اک ہی وقت میں میں دو سرحدوں کو دیکھ سکتا تھا، میری نظر اسی منظر کو دیکھے جا رہی تھی اور ساتھ میں مقامی شخص سے سوال کر رہا تھا کہ یہ علاقہ کونسا ہے اسکی بودو باش اور لوگوں کا گزر بسر کیسے ہوتا ہے، جسکے جواب میں اس نے بتایا کہ یہاں کے لوگوں کے خاندان کے لوگ ملک سے باہر مقیم ہیں اور وہی انکا کمائی کا ذریعہ ہیں اس بات کا اندازہ ہو رہا تھا کیوں کہ انتہائی خستہ حال سڑک سے گھر بنانے سے زیادہ یہاں تک سامان پہنچانا تھا اور یہ بات میرے پوچھنے پر اس شخص نے بھی بتائی کہ بالکل یہاں سامان لانے میں گاڑی کا کرایہ کافی زیادہ لگ جاتا ہے۔ موسم میں نمی کے باعث بادل بھی ارد گرد موجود تھے جنہوں نے سورج کی تپش کو روکے رکھا تھایہاں کا موسم معتدل نہیں رہتا کسی وقت بھی موسم کی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ میرے باقی سوالوں کے جواب کا خلاصہ میں اس علاقے کے نام سے کرتا ہوں جسکو آزاد کشمیر کے لوگ بخوبی جانتے ہیں۔ ضلع کوٹلی کی تحصیل چڑھوئی میں میں موجود ہوں اسی تحصیل چڑھوئی کا نظارہ بھی اس مقام سبز کوٹ سے کیا جا سکتا ہے۔ اسکے ساتھ منسلک گاؤ ں کا نام پن پیلاں،رسانی، ڈم کسی، ناڑا کوٹ، پیڑا، سنگالا اور اسکے ساتھ کیری بارڈر وہ سرحدی بارڈر لائن ہے جسکا نظارہ سب سے دلکش تھا۔
مقامی شخص کے چلے جانے کے بعد بھی میں اس منظر کو دیکھتا رہا آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان سرحدی علاقہ تقریبا 740 کلو میٹر ہے یہ بارڈر لائن ملٹری کنٹرول بارڈر لائن کہلاتی ہے اور چونکہ یہ بین القوامی بارڈر کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے اس لیے یہ فیکٹو بارڈر کے نام سے جانی جاتی ہے،اب مجھے اس بات کا مزید تجسس ہے کہ باقی علاقے بھی ایسے ہی دلفریب اور دلکش ہوں گے اس تجسس کو مٹانے کے لیے میں مزید علاقوں میں بھی جاؤں گا اور وہاں کی منظر کشی اپنے الفاظ میں پیش کروں گا۔ دن کی سرخی میں کمی ہونے کا وقت ہو چکا تھا جیسے وہ دن بھر کی محنت کے بعد اب سکون کے لیے کسی پر سکون جگہ کی طرف گامزن ہو اندھیرا اپنے راج کے لیے بالکل تیار تھاتبھی مجھے بھی احساس ہوا کہ اب واپسی کی راہ لی جائے تاکہ پھر سے میں کوئی ایسا خواب دیکھ سکوں جسکو میں اپنی کوشش سے پورا بھی کر سکوں۔

× How can I help you?